یہ بلاگ تلاش کریں

Breaking

منگل، 13 مارچ، 2018

جب دفاتر میں نیا نیا کمپیوٹر آیا تھا تو بہت سے ایسے لوگ جنہیں اس کی الف بے کا بھی نہیں پتہ تھا انہوں نے بھی ضرورت سمجھتے ہوئے,تحریر احسان الہی ملک

جب دفاتر میں نیا نیا کمپیوٹر آیا تھا تو بہت سے ایسے لوگ جنہیں اس کی الف بے کا بھی نہیں پتہ تھا انہوں نے بھی ضرورت سمجھتے ہوئے کمپیوٹر سیکھنا ضروری سمجھا۔ کچھ لوگوں نے تو باقاعدہ کورس کیے اور جو کسی وجہ سے کورس وغیرہ نہ کرسکے وہ بھی دوسروں سے پوچھ پوچھ کر سیکھتے رہے اور آہستہ آہستہ مہارت حاصل کرتے گئے۔ موبائل فون آنے پر بھی یہی معاملہ ہوا۔ جب اسے ضرورت سمجھا جانے لگا تو ان پڑھ لوگوں نے بھی کوشش کرکے موبائل چلانا سیکھ لیا۔ اور اکثر لوگ اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں کہ مجھے کمپیوٹر یا موبائل بالکل بھی چلانا نہیں آتا تھا لیکن میں نے محنت کرکے لوگوں سے پوچھ پوچھ کر سیکھ ہی لیا۔ فیس بک، ٹوٹیر وغیرہ پر بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگوں کو جس چیز کا علم نہیں ہوتا پوسٹ کرکے پوچھ لیتے ہیں کہ یہ کس طرح ہوگا، بہت سے لوگوں نے کمپیوٹر میں اردو لکھنا بھی اسی طرح سیکھا اور آج ماہر بن چکے ہیں۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم عبادات میں اس چیز کا خیال نہیں رکھتے۔ جس طرح نماز پڑھتے ہیں برسوں اسی طرح پڑھتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی صاحب علم کو اپنی نماز نہیں سنائی کہ کوئ غلطی تو نہیں، کبھی کسی سے نہیں پوچھا کہ فلاں عمل کس طرح کرنا ہے۔ نماز کے ڈھیروں مسائل ہیں اور ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کے سیکھے بغیر نماز نہیں ہوتی لیکن کتنے لوگوں نے انہیں سیکھنے کی کوشش کی۔ کتنے لوگ ہیں جو اپنی نماز کو بہتر بنانے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ وضو کا مسنون طریقہ کیا ہے کوئی پرواہ نہیں، نماز میں کیا فرض ہے ،کیا واجب ہے، سنت کیا ہےاور کیا مستحب ہے کچھ پتہ نہیں، کن چیزوں سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، کونسی چیزیں مکروہ ہیں کبھی پوچھنا گوارہ نہیں کیا۔ یہی حال دوسرے معاملات میں ہے۔ یاد رکھیں لاعلمی کوئی عذر نہیں ہے۔ جو احکامات اللہ نے فرض کیے ہیں ان کا سیکھنا بھی فرض قرار دیا ہے اور نہ سیکھنے والے کو دوہرا گناہ ہے۔ ایک نہ سیکھنے کا اور دوسرا غلط پڑھنے کا۔ کسی ملک میں رہتے ہوئے اس کے قانون جاننا ہر شہری کی ذمہ داری ہوتی ہے کوئی یہ کہ کر اپنی جان نہیں چھڑوا سکتا کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہاں فلاں چیز جرم ہے۔ تو پھر احکم الحاکمین کی بارگاہ میں یہ عذر کیسے قابل قبول ہوگا۔ جس نے سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی گویا اس نے اپنے آپ کو سب کچھ جاننے والا ظاہر کیا اور سب کچھ جاننے والے کو غلطی کرنے پر معافی نہیں ملتی، معافی تو سیکھنے والے کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے نہایت ادب سے گذارش ہے کہ اپنی نمازوں اور دوسری عبادات بہتر بنانے کے لیے انہیں باقاعدہ کسی عالم سے سیکھیئے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ کئی کئی سال کے نمازیوں نے جب اپنی نماز سنائی تو ایسی غلطیاں نکلی جن سے نماز تو غلط ہوتی ہی تھی ساتھ میں انسان کا ایمان جانے کا بھی خدشہ بھی تھا۔ لیکن چونکہ پڑھ پڑھ کر عادت پختہ ہوچکی تھی اس لیے ٹھیک کرنا بہت ہی مشکل ثابت ہوا۔ پھر ٹھیک کرنے کے لیے دگنی تگنی محنت کرنی پڑی۔ اپنی دنیا اچھی بنانے کے لیے محنت کرنے والے لوگ اپنی آخرت اچھی بنانے کے لیے بھی تھوڑی سی محنت کرلیں تو ان کا اپنا ہی فائدہ ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں