یہ بلاگ تلاش کریں

Breaking

ہفتہ، 11 اپریل، 2020

اپریل 11, 2020
                                شبِ برآت اور ہم 

شب سے مراد "رات" اور برأت کے معنیٰ "لاتعلقی" " بیزاری" ہیں.اس رات کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے

حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " بے شک اللہ پندرہ شعبان کی نصف رات کو جلوۂ افروز ہوتا ہے اور اپنی مخلوق کے گناہ بخش دیتا ہے"

اس رات مسلمان عبادات کرتے ہیں اور مختلف وظائف کا ورد بھی جاری رہتا ہے.تحریر کا اصل مقصد اس بات کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے کہ اس رات جو پٹاخے بجائے جاتے ہیں, ہمیں اپنے بچوں کی اصلاح کرنی ہے اور انہیں "دیوالی" جو ہندوؤں کا تہوار ہے, اس سے مشابہت اختیار کرنے سے بچانا ہے

انجانے, ناانجانے میں والدین بھی اس بات پر توجہ نہیں دیتے.ایک طرف مسلسل پٹاخے بازی سے مریض و دیگر لوگ پریشانی کا شکار ہوتے ہیں تو دوسری طرف عبادت میں یکسوئی بھی پیدا نہیں ہو پاتی

لہذا میری تمام والدین سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو عبادات, خدمت خلق کی طرف راغب کریں,نہ کہ انہیں پٹاخے خرید کر لوگوں کی زحمت کا ساماں پیدا کریں
ذرا نہیں, پورا سوچیں

وسیم احمد

اتوار، 29 مارچ، 2020

مارچ 29, 2020

سکوں کی داستان سکوں کے بارے میں بنیادی معلومات

سکوں کی داستان

سکے ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھ سے روزانہ گزرتے ہیں.کسی بھی دھات کے اس ٹکڑے کو سکہّ کہتے ہیں جو کسی حکومت کی جانب سے مقررہ نشان لگانے کے بعد ایک مخصوص مالیت کے مطابق جاری کیا جائے
تاریخ میں سب سے پہلے سکوںّ کا اجراء چین میں ہوا.دنیا کے دیگر حصّوں میں چاندی,سونا,گندم اور نمک بھی زر کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے.

سکوں کی داستان سکوں کے بارے میں بنیادی معلومات
سکوں کی داستان سکوں کے بارے میں بنیادی معلومات


سکے ڈھالنے والی جگہ کو ٹکسال کہتے ہیں.ان کی کوئی مخصوص شکل نہیں ہوتی.یہ گول,چوکور,غرض کسی بھی شکل میں ہو سکتے ہیں.
سکّہ کسی بھی حکومت کا بنیادی نشان تصور کیا جاتا ہے اور قدیم وقت میں بادشاہوں کی علامت تھا اس لئے وہ برسراقتدار آتے ہی اپنے نام سے سکہ جاری کرواتے تھے.مختلف ادوار میں مختلف دھات سکے کی تیاری میں استعمال کی گئی.سلطان محمد تغلق کے عہد میں جب چاندی کے سکوں کی قلت ہوئی تو چمڑے کے سکے بھی جاری ہوئے مگر لوگوں نے چمڑے کی جعلی سکے بھی چلانے شروع کر دیے جس کی وجہ سے چمڑے کی سکے بندش کا شکار ہوئے.
اسلامی ممالک میں سکوں پر آیت یا کلمہ تحریر ہوتا جبکہ دیگر ممالک میں بادشاہ کی تصویر کنندہ ہوتی تھی.جب پاکستان وجود میں آیا تو اس کا اپنا سکہ نہیں تھا.آغاز میں ہندوستانی سکے چلتے رہے اور پھر یکم اپریل انیس سو اڑتالیس میں رپیہ,اٹھنی,اکنی کے سات سکے تیار کروائے گئے.
یہ لاہور,ممبئی,کلکتہ کی ٹیکسالوں میں تیار ہوئے.
پہلا پیسہ سائز میں بڑا تھا جس کے درمیان سوراخ تھا.یہ کانسی,نکل,تانبے اور ٹین کے آمیزے سے بنا تھا.انیس سو پچپن میں سکوں کا دوسرا دور شروع ہوا.یہ سکے لندن کی ٹیکسال میں تیار ہوئے تھے.انیس سو اکسٹھ میں ایک پائی,پانچ اور دس پائی کے نئے سکے جاری ہوئے.انیس سو ساٹھ تک ڈاکخانوں اور لین دین میں آنہ و پائی میں حساب ہوتا تھا.
نوے کی دہائی میں پیسے والے تمام سکے ختم ہوگئے اور اب سب سے چھوٹا سکہ روپے کا سکہ ہے اور اس کے ساتھ دو روپے ,پانچ روپے والا سکہ بھی رائج ہے.ایک روپے والے سکے پر قائد اعظم کی شبیہ بنی ہے اور دوسری جانب مسجد کی شبیہ ہے.دو اور پانچ روپے والے سکوں پر ایک طرف چاند,ستارہ جبکہ دوسری جانب مسجد کی شبیہ بنی ہے.
سکوں کا دوسرا دور یارگاری سکوں کا دور ہے.دنیا کا ہر ملک یادگاری سکہ جاری کرتا ہے جس کا مقصد مختلف شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرنا, کسی تاریخی مقام کو روشناس کرانا وغیرہ شامل ہیں.
پاکستان نے بھی اس ضمن میں کئی یادگاری سکے جاری کئے جن میں سینٹ کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر,آزادی کی پچاسویں سالگرہ پر,قائد اعظم و علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات شامل ہیں.مگرمچھ کی حفاظت کے ضمن میں ڈیڑھ سو روپے والا چاندی کا سکہ جاری کیا گیا اور بلوچستان کے مارخور کے تحفظ کیلئے تین ہزار مالیت کا سونے کا سکہ جاری ہوا جو جلد ہی منظر عام سے غائب ہو گئے کیونکہ لوگوں نے انہیں یادگاری طور پر رکھنا شروع کر دیا تھا.ڈاکٹر رتھ فاؤ, عبدالستار ایدھی اور سر سید احمد خان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے بھی یادگاری سکے جاری کئے گئے ہیں.
بابا گرو نانک کی پانچ سو پچاسویں جنم دن کی تقریبات کے موقع پر حکومتِ پاکستان نے پانچ سو پچاس روپے مالیت کا سکہ جاری کیا ہے اور افغان مہاجرین کے پاکستان میں چالیس برس پورے ہونے پر بھی چالیس روپے کا سکہ جاری کیا گیا ہے.
پاک چین دوستی سکہ سنہء دو ہزار گیارہ اور پاک نیوی یادگاری سکہ سنہء دو ہزار تیرہ بھی ان سکوں میں شامل ہیں.موجودہ دور میں ہر ملک دیدہ زیب سکے جاری کرتا ہے جس میں ہمہ قسم یادگاری و لین دین میں استعمال ہونے والے سکے شامل ہوتے ہیں.
یادگاری سکے کلیکٹرز کیلئے خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں.سکے جمع کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد دنیا میں موجود ہے.

ازقلم وسیم احمد

جمعہ، 20 مارچ، 2020

مارچ 20, 2020

Searchoye-Pakistan Nei Google Ki Tarz Per Apna Search Engine Tayyar Karleya



Searchoye-Pakistan Ka Google Ki Tarz Per Apna Search Engine Tayyar Karleya 


Pakistan ke nujawan Umer Idris nei wo kar dekhaya ju aaj tak Pakistan mei kesi nei nahi keya.

Umer Idris Pakistani enterpreneur,digital marketer aur Pakistan ke one of the best blogger hei.



Umer Idris nei google ke tarah eik search engine tayyar keya hei ju 18March ko pre-launch kar de gaye hei Umer Idris ke mutabiq Searchoye abhi testing phase mei hei.
Umer Idris dastiab.comdastiab.com ke bhi founder aur ceo hei ju olx ke tarz per kaam kar rahi hei dastiab.com mei aap apni kesi bhi cheez ki ad laga sakti hei aur kharidar dhond sakti hei.

Searchoye kelie ham Umer Idris ko dua karte hei ke Allah searchoye ko kamyab kare aur searchoye ke zarye Allah Pakistan ka naam dunia mei roshan kare.

پیر، 16 مارچ، 2020

مارچ 16, 2020

ہیڈ ورکس پنجند



                       

       ہیڈ ورکس پنجند

برصغیر کی خوشحال ریاست بہاولپور کیلئے 1921ء میں سیکرٹری آف انڈیا فار اسٹیٹ نے ستلج ویلی پروجیکٹ کی تجویز پیش کی

پنجند کا وجۂ تسمیہ پنجاب کے پانچ دریاؤں کا آپس میں ملنا ہے.اس سے نکلنے والی نہروں سے بہاولپور اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو سیراب کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ریاست کا جنوبی حصّہ جو بیشتر صحرائی علاقوں پر مشتمل تھا اب زرخیز زمین میں تبدیل ہو چکا ہے

اس پروجیکٹ کے تحت تین جگہ دریاؤں پر بند باندھ کر ریاست میں نہریں نکالیں گئیں جو ایک وسیع رقبے کو سیراب کرتی ہیں.یہ بند ہیڈ سلیمانکی,ہیڈ اسلام اور ہیڈ پنجند کہلاتے ہیں

ہیڈ پنجند کے قیام کا مقصد ریاست بہاولپور کے جنوبی حصّے کے وسیع رقبے کی سیرابی تھا.ریاست بہاولپور کی جانب سے "جان بنیٹک" اس پروجیکٹ پر تعینات تھے

پنجند کا بند دریائے ستلج اور دریائے چناب کے سنگم کے بیچ واقع ہے اور یہاں سے نکلی ہوئی نہروں میں وافر مقدار میں پانی موجود رہتا ہے
ستلج ویلی پروجیکٹ کے تحت پانچ ہزار لمبی نہریں وجود میں آئیں اور اس پروجیکٹ کی کل لاگت 33 کروڑ روپیہ تھا جس میں سے 14 کروڑ روپیہ ریاست بہاولپور نے ادا کیا
(حوالہ : بہاولپور گزیئٹر)

ریاست بہاولپور نے ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا.ہیڈ پنجند کے قیام سے جنوبی علاقوں کے کسانوں کیلئے ترقی کے دروازے کھلے.نواب صادق خان عباسی پنجم نے بلاشبہ ریاست کو عروج پر پہنچایا اور کئی فلاحی کام پایہء تکمیل تک پہنچائے
Visit my Blog : www.Voiceofwaseem.blogspot.com
مارچ 16, 2020

تورغر کی روایات تورغر میں اب بھی قائم ہے تورغر میں ہمیشہ جب بارش نا ہو یا کسی اوباء کا حدشہ ہو تو گاوں والے ملکر




تورغر کی روایات تورغر میں اب بھی قائم ہے تورغر میں ہمیشہ جب بارش نا ہو یا کسی اوباء کا حدشہ ہو تو گاوں والے ملکر اللہ کی راہ میں بھینس زبح کرتےہے ( یعنی خیرات) کرتے ہیں بلکل اس طرح ملک میں کرونا وائرس کی افواہ ہے اورپورےملک میں عوام میں کرونا کی خوب اور ڈر ہے اس ڈر کی وجہ سےگاوں کاروڑ مداخیل میں آفت سے نجات پانے کیلئے اللہ کی راہ میں بھینس زبح کیا اور پورے گاوں نےاتفاق سے یہ خیرات کیا اور آج جب میں نے گاوں کی یہ تصویریں دیکھی تو دل بہت خوش ہوا اور مجھے پورانا وقت یاد آیا اللہ تعالی ہمارے بزرگوں کوجنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائیں کہ ہمیں یہ طریقہ بتایاہے اللہ تعالی ہمارے گاوں والوں کی یہ قربانی قبول فرماکر اس مصیبت سے پورےملک کو حفاظت میں رکھیں آمین
مارچ 16, 2020

پون چکی 1919ء، پکھے والا کھو

پون چکی 1919ء، پکھے والا کھو، جہانیاں: جنگ عظیم اول میں حصہ لینے کے اعزاز میں برطانوی سرکار نے گوجرہ سے تعلق رکھنے والے صوبیدار امام علی کو چک 131/10R تحصیل جہانیاں، ضلع خانیوال میں دو مربع زمین الاٹ کی۔ آپ گوجرہ کو الوداع کہہ کر اس چک میں آباد ہوگۓ۔ صوبیدار صاحب ایک باہمت، وضع دار، جدت پسند اور محنتی طبیعت کے حامل شخص تھے۔ جنگی ایام کے دوران فرانس میں پون چکی سے چلنے والا واٹر پمپ دیکھا جس سے متاثر ہو کر وہ ٹیکنالوجی اپنی زمین پر آزمانے کا ارادہ کیا۔ فرانس سے اس پون چکی کا ڈیزائن تیار کروایا۔ جب واپس آۓ تو مذکورہ بالا چک میں سکونت اختیار کی اور پون چکی تعمیر کرائ۔




ہماری معلومات کے مطابق یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی واحد ہوا سے چلنے والی چکی ہے جو زیر زمین پانی نکالنے کے لیے بنائ گئ تھی۔ صوبیدار امام علی کے پوتے محمد فاروق صاحب نے بتایا کہ یہ مقام پکھے والا (پنکھے والا) کھو کے نام سے مشہور ہے اور جنگ عظیم اول کے بعد ہمارے دادا مرحوم نے اسکو آباد کیا۔ اس وقت نہری پانی کا نظام اتنا مؤثر نہیں تھا۔ دادا مرحوم نے فرانس میں اس پون چکی والے طریقہ کو یہاں متعارف کرایا۔ کافی عرصہ تک اس چکی کی عمارت کی تعمیر جاری رہی جسکو ایک مسلم اور ایک سکھ معمار نے تعمیر کیا۔ اسکے لکڑی کے چار بڑے پر ہیں، جنہیں 180 گز کپڑا لگا تھا۔ ہوا کے رخ پروں کو موڑنے کے لیے عمارت کے ٹاپ پر ٹرین کی پٹڑی کی طرح لوہے کا گول کڑا لگا ہوا ہے۔ پانی نکالنے کے لیے چاروں جانب کنویں کھودے گۓ۔ اس وقت زیر زمین پانی 10 سے 15 فٹ کی گہرائ پر تھا۔ جب اسکی تعمیر مکمل ہوئ اور پون چکی نے کام کرنا شروع کیا تو پہلے روز 24 گھنٹوں میں اتنا پانی نکلا کہ اس سے 52 ایکڑ زمین سیراب ہوئ۔ لیکن اگلے روز اس شاندار کامیابی کی خوشی چکنا چور ہو گئ جب اس بات کا احساس ہوا کہ اس پون چکی کے پروں کو روکنے کا کوئ نظام نہیں تھا، ہوا چلتی رہتی تو پر بھی گھومتے رہتے اور پانی بھی نکلتا رہتا۔ چناچہ برسوں کی محنت سے بننے والے اس منصوبہ کو صرف ایک دن چلنے کے بعد بند کر دیا گیا۔ پکھے والے کھو میں ہی صوبیدار امام علی مرحوم کی آخری آرامگاہ ہے اور ایک پرانی مسجد بھی ہے۔ آپکا انتقال 75 برس کی عمر میں 25 مئ 1938 کو ہوا۔ فاروق صاحب نے بتایا کہ پون چکی دیکھنے دور دراز سے لوگ آتے تھے، دادا مرحوم کے زمانے میں پون چکی کی تعمیر کے دوران کسی شخص نے پوچھا کہ یہ کس سردار صاحب (سکھ سردار) کا کھو ہے جو اتنا شاندار منصوبہ تعمیر کروا رہا ہے۔ یہ سن کر امام علی صاحب جذباتی ہوگۓ اور کہا کہ کیا کوئ مسلمان ترقیاتی کام نہیں کرا سکتا۔ پون چکی کی تعمیر رکوائ اور فورا ایک مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تاکہ آنیوالوں کو دور سے ہی معلوم ہو جاۓ کہ یہ کسی سکھ یا ہندو کا نہیں بلکہ ایک مسلمان کا علاقہ ہے۔



کچھ فاصلے پر صوبیدار امام علی کی رہائشگاہ بھی ہے، آپ نے اپنے تینوں بیٹوں کے لیے الگ الگ مکان تعمیر کراۓ۔ خود سب سے بڑے بیٹے کے ہاں رہائش رکھی۔ آج بھی اس میں انکی اولاد رہائش پذیر ہے۔ آپ نے صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں بھی زمین خریدی جو اپنے بھائیوں میں تقسیم کر دی۔ ہم صوبیدار امام علی کی رہائشگاہ میں داخل ہوۓ تو اندر کا سادہ اور دیہاتی ماحول ہمیں سو سال پیچھے لے گیا۔ آپکے پوتوں اور پڑپوتوں نے جس طرح اعلیٰ اخلاق اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہم صوبیدار امام علی مرحوم کی وضع داری کے قائل ہو گۓ جو آج بھی انکے خاندان میں برقرار ہے۔ وسیع کچے فرش کے صحن میں دانا چگتے کبوتر، حفاظت پر معمور کتا، سآگھنے درخت کے نیچے چارپائیاں، پرانے طرز کا باورچی خانہ اور اس میں لکڑی کوئلہ کا چولہا، موٹی چنائ کی دیواریں، چھت پر لکڑی کا کام، ہمیں صوبیدار امام علی کے دور میں لے گیا۔ فاتحہ تو آپکی قبر پر پڑھ ہی چکے تھے، بیٹھک کی دیوار میں لٹکی آپکی رنگین تصویر کو دیکھ کر آپکو خراجِ تحسین کیا۔ روایتی مہمان نوازی پر آپکی آل اولاد کا شکریہ ادا کیا اور اجازت طلب کی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ صوبیدار امام علی کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔ تحریر و تصاویر: ڈاکٹر سید مزمل حسین وسیب ایکسپلورر

اتوار، 15 مارچ، 2020

مارچ 15, 2020

امریکی صدر باراک اوبامہ جب امریکہ کے صدر منتخب ہوئے

                          کامیابی کا حصّول
امریکی صدر باراک اوبامہ جب امریکہ کے صدر منتخب ہوئے

امریکی صدر باراک اوبامہ جب امریکہ کے صدر منتخب ہوئے
 تو ان سے ٹی وی اسکرین پر پہلی مرتبہ یہ سوال پوچھا گیا کہ "آپ ایک مڈل کلاس سیاہ فام گھرانے سے تعلق
رکھتے ہیں اور آپ صدر کیسے منتخب ہوگئے"؟


امریکی صدر کا جواب حیران کر دینے والا اور متاثرکن تھا کہا  "منزل کو پہچاننے کے بعد اس سیاہ فام لڑکے نے محنت اور جدوجہد سے دوستی کرلی تھی"۔
                                   
کامیابی ہر شخص کا خواب ہے مگر یہ ہر شخص کے حصے میں کیوں نہیں آتی؟ کیا وجہ ہے کہ صرف چند لوگ ہی اس کی لذت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ مالکم ایس فوربنر کے بقول "صلاحیت کارتوس ہے اور محنت بندوق" کامیابی کے حصول کیلئے ہمیں جدوجہد اور محنت کی بندوق چاھئیے..ورنہ صلاحیت اور طاقت جیب میں پڑے کھوٹے سکوں کے سوا کچھ بھی نہیں.کامیاب شخص کے مقاصد اس کا استقبال کرتے ہیں

منزل اس کے پاوں چومتی ہے.عزت،شہرت،دولت،اس کی میراث بنتی ہیں.تاریخ اسے اپنے حافظے میں جگہ دیتی ہے.چاہنے والے لوگ اس کے آٹوگراف لینے کو بےتاب ہوتے ہیں.نسلیں اس سے جیت کا جذبہ حاصل کرتی ہیں

ان لوگوں میں اور ہم میں کیا فرق ہوتا ہے ؟یہ بھی ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں اور ہماری نسلوں سے ہی ہیں۔
ایک جیسا کھاتے ہیں،ایک جیسا پیتے ہیں،ایک جیسا پہنتے ہیں۔پھر آخر کامیابی ہی ان کا مقدر کیوں بنتی ہے؟
یہ کامیاب لوگ ایک طالبعلم،بزنس مین،والدین،ادارے کے سربراہان،ہو سکتے ہیں.ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ مسلسل محنت اور جدوجہد ہوتی ہے

میکڈونلڈز (مشہور فاسٹ فوڈ چین)کے بانی نے زندگی میں کئی مرتبہ ناکامیوں کا سامنے کرنے کے بعد جب اپنا تمام سرمایہ اپنے برگر کے کاروبار پر لگایا تو وہ اس پر ڈٹ گئے.ان کے اس عزم کا نتیجہ آج دیکھیں کہ دنیا کے ہر کونے میں میکڈونلڈ کی شاخ واقع ہے۔جب آپ ایک مرتبہ کسی بات کا ارادہ کر لیں تو اس پر ڈٹ جائیں،مسلسل جدوجہد کریں،کامیابی آپ کے قدم چومے گی

دنیا کے کسی بھی کونے،کسی بھی ادارے میں،کسی بھی کام میں جب تک محنت اور جدوجہد شامل نہیں
ہوگی تو کامیابی کا تصور بھی محال ہے

ہم میں سے بہت سے لوگ نتائج اور حصول کو کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی اس نشے کا حتمی حصول ہے جس کی خواہش کی جائے.یہ کامیابی کا ادھورا نظریہ ہے جس کا تعلق کامیابی سے زیادہ لالچ سے ہوتا ہے

ہمارا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کامیابی پر تو یقین رکھتے ہیں مگر اس کٹھن راستے پر چلنے کو تیار بلکل نہیں ہوتے.
دوسرے الفاظ میں یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ ہم جنت میں
بھی جانا چاھتے ہیں اور مرنا بھی پسند نہیں کرتے.

محنت اور جدوجہد کو ہی کامیابی سمجھنے والے نہ صرف منزل تک پہنچتے ہیں بلکہ ہار جانے کی صورت میں بھی اس سفر کو جاری رکھتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں منزل کسی اور شکل میں ان کیلئے چشم براہ ہے اور ان کا کام تو چلتے رہنا ہے،نتائج اور انجام کی پرواہ کیے بغیر
Visit my Blog,
www.voiceofwaseem.blogspot.com
مارچ 15, 2020

Cristiano Ronaldo Nei Wo Kar Dekaya Ju Koi Nahi Kar Saka

Cristiano Ronaldo Nei Wo Kar Dekaya Ju Koi Nahi Kar Saka.


Cristiano Ronaldo Nei Wo Kar Dekaya Ju Koi Nahi Kar Saka




Portugal (4newshd.com):
   
    Ghair Mulki Khabar Egency Ke Mutabiq Dunia Ke Maqbool Tareen Sportsman aur No 1 Footballer Cristiano Ronaldo Nei Apni Hotels Chain ko Corona Virus Ke Khatri Ke Pesh Nazar Hospitals Mei Tabdeel Kar Leya Hei.Cristiano Ronaldo Ne Apni Hotels Ko Hospitals Mei Transformed Kar Deya Hei.
Ceistiano Ronaldo Nei Faisla Kar Leya Hei Ke Hospitals Ka Sara Kharcha Mareezo Ka Sara Elaj Aur Doctors aur Nurses ke Salaries Sare Wo Khud Ada kare ge.

Cristiano Ronaldo Pehel Bhi Es Tarah Ke Falahi Kaaamo Mei Pesh Pesh Huti Thei .
Un Ke is Qadam Nei Sabit Kar Deya hei Ke Wo Sirf Eik Ache Sportsman Hei Nahi Balki Eik Achi Insan Bhi Hei.

ہفتہ، 14 مارچ، 2020

مارچ 14, 2020

کرونا وائرس کا معاملہ، وزیر اعظم نے وہ کام کرنے کا فیصلہ کرلیا جو وہ ہر مشکل وقت میں کرتے ہیں

کرونا وائرس کا معاملہ، وزیر اعظم نے وہ کام کرنے کا فیصلہ کرلیا جو وہ ہر مشکل وقت میں کرتے ہیں






اسلام آباد : کرونا وائرس کے معاملے پر وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کا فیصلہ کیا ہے۔


ضرور پڑھیں: ایران کے نائب وزیر صحت بھی کورونا کا شکار ہوگئے  نیا بحران پیدا ہوگیا
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا ’میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ کرونا وائرس کے تدارک کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کی ذاتی طور پر نگرانی کررہا ہوں اور جلد آپ سے مخاطب ہوں گا۔ عوام کو میری نصیحت ہے کہ کرونا سے بچاو¿ کیلئے حکومت کی جاری کردہ ہدایات پر عمل کریں۔ احتیاط اگرچہ لازم ہے مگر ہیجان کی قطعاً ضرورت نہیں۔‘

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم خطرات سے پوری طرح آگاہ اور چوکنے ہیں اور اپنے لوگوں کی صحت و سلامتی کیلئے مناسب انتظامات کرچکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے اس حوالے سے ہماری کاوشوں کو سراہا ہے اور انہیں دنیا میں بہترین قرار دیا ہے۔