یہ بلاگ تلاش کریں

Breaking

منگل، 6 مارچ، 2018

انصاف پر اعتماد کیجیے ,نوجوان لکھاری فہد ریاض کے قلم سے

انصاف پر اعتماد کیجیے۔

میاں نواز شریف اپنی نا اہلی کے اول روز سے سپریم کورٹ اور ججز کے ساتھ محاذ آرائی پر عمل پیرا ہیں اور عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے چلے آ رہے ہیں جبکہ ماضی میں جب عدلیہ کے فیصلے پیپلز پارٹی یا دیگر سیاسی پارٹیوں کے خلاف آتے رہے تو میاں صاحب ہی سب سے بڑے عدلیہ کے احترام کےحامی تھے ۔ پانامہ لیکس کے بڑے سکینڈل کے بعد سے اعلی عدلیہ نے رسی تنگ کر دی اور میدانوں دھرنوں سڑکوں اور کنٹینرز پر سوار ہو کر لڑی جانی والی اس جنگ کا ازخود نوٹس لیتےہوئے آئینی اور قانونی طور مستقل حل کیلئے فریقین کو پابند کیا تاکہ جمہوریت کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور ملک عزیز میں انتشار کی سیاست کی راہ ہموار نہ ہو سکے ۔یوں ہر قسم کی اپوزیشن اور عوامی پاور شوز اور لاک ڈاؤن سیاست کا راستہ روک دیا گیا اور دھرنا سیاست کو منطقی انجام تک پہنچایا جس پر سب سے زیادہ میاں صاحب ،انکے خاندان اور پارٹی نے ہی سکھ کا سانس لیا اور اسے اپنی جیت کا پہلا مرحلہ سمجھا تھا۔ یوں فریقین کی جانب سے گواہوں اور ثبوتوں کا طویل سفر شروع ہوا ۔میاں نواز شریف اور انکی فیملی پر لگائے جانے والے پانامہ پیپرز میں الزامات کی تحقیقات کا سفر شروع ہوا تو بظاہر میاں صاحب نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ انکی توقع رہی ہو گی کہ اس کیس کا حشر بھی سبزہ زار کیس یا دیگر ایشوز کی طرح ہو گا ۔ اداروں کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے والوں کو دھچکا اس وقت لگا جب جسٹس صاحب نے جے آئی ٹی کو مکمل اختیارات سونپتے ہوئے شفاف تحقیقات کے احکامات صادر فرمائے۔ بہرحال دونوں فریقین نے عدالتی جنگ پوری جرات اور زور سے لڑی ۔ چند دن نہیں بلکہ پورے چھ ماہ تک فریقین کو ثبوت پیش کرنے کیلئے بلایا جاتا رہا اور میاں صاحب اور انکے بچوں کو پیش ہو کر اپنی صفائی کی پوری مہلت دی گئی مگرشریف خاندان کی جانب سے ٹھوس شواہد کی بجائے فقط زبانی مفروضے سنائے گئے کتنی ہی حیرت کی بات ہے کے ایک ہی ایشو پر ایک ہی گھر کے سارے افراد کے بیانات مختلف سامنے آئے کہا جاتا ہے۔ مریم صفدر صاحبہ نے تو لیکس کے چند دن بعد ہی پوری قوم کے سامنے جھوٹ بولا کہ میری لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہے چند دن بعد بھائی کا اعترافی انٹرویو سامنے آیا کے لندن اپارٹمنٹس کی بینیفشر اونر مریم باجی ہی ہیں اسی لیکس پر مختلف بیانات سامنے آتے رہے جن میں سے کلثوم نواز حسن نواز حسین نواز چوھدری نثار کے بیانات اور اسحاق ڈار کیپٹن صفدر اور میاں نواز شریف سمیت انکی پوری کابینہ کے بیانات سامنے آئے اور جس پارلیمنٹ کے تقدس کی قسمیں یہ ہر روز قوم کے سامنے کھاتے ہیں اسی مقدس پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر میاں نواز شریف نے پوری قوم کے سامنے پھر جھوٹ بولا ٹی وی شوز اور ٹویٹر پر بڑی بڑی بڑھکیں مارنے والے رہنما اپنی بیگناہی اور آمدن سے زائد اثاثوں کی تفصیلات پیش کرنے سے قاصر رہے۔ آخر 180 دنوں تک لڑی جانے والی یہ عدالتی جنگ میاں صاحب ہار گئے اور تاحیات نا اہل قرار دے دیے گئے ۔اب صورتحال یہ ہے کہ میاں صاحب اپنے ہی ملک کے ادراوں کیخلاف لوگوں کو اکسانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اپنی پارٹی ورکرز کو بھی اپنے طرز پر چلا رہے ہیں اب جب بھی جسٹس صاحبان کوئی فقرہ دوران سماعت کہہ دیں تو چور کی داڑھی میں تنکا کیطرح میاں صاحب فوراً کھٹک جاتے ہیں حالانکہ چیف جسٹس صاحب کا یہ کہنا صرف ایک سوال تھا کے کیا کوئی ڈاکو یا چور کسی پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے؟ مگر برعکس میاں صاحب بضد ہیں کے وہی صدر بنیں گے کیونکہ صاحب کو اقتدار کا نشہ ہی اتنا ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے جب نشہ چڑھ جاتا ہے تو وہ ساری سوجھ بوجھ ختم کر کے رکھ دیتا ہے اقتدار کا ڈوبتا سورج انہیں اتاولا کیے ہوئے ہے۔ جب میاں صاحب سے اپوزیشن پارٹیز بالخصوص پاکستان تحریک انصاف پانامہ لیکس پر عدالتی سماعت کے دورانیے میں استعفی کا مطالبہ کر رہی تھی قوم کو دوران جلسہ ان کا متکبرانہ انداز میں کہا جانے والا جملہ یاد ہو گا کہ انکے کہنےپر استعفی دوں یہ منہ اور مسور کی دال ؟ اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے میاں صاحب متکبرانہ جملے کی پکڑ میں آ گئے اب یہ حال ہے کہ ہجر اقتدار کے غم سے نڈھال ہو کر میاں صاحب گلی گلی شہر شہر نگر نگر سڑکوں پر دھائی دیتے پھرتے ہیں‘‘ مجھے کیوں نکالا’’؟ قوم کی رہنمائی کے علمبردار اب قوم پر ترس کھائیں اور ملک کے اداروں کیخلاف محاذ آرائی بند کریں۔ اس وقت ملک ان محاذ آرائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بالفرض عدلیہ کےفیصلوں پر کسی کو کوئی تحفظات ہیں بھی سہی تو ملکی وقار کی خاطر ہی سہی اپنے بڑے پن کا ثبوت دیں۔ آپ کی نظر میں تو قوم شاید صرف وہ ڈیڑھ کروڑ عوام ہے جس نے آپ کو ووٹ دیے باقی ١ٹھارہ کروڑ سے زائد لوگ یقیناً قوم نہیں۔ اگر عدلیہ کے فیصلوں پر بد اعتمادی آپ کو آپ کے چند ووٹروں سپورٹروں کو ہے تو اس کیلئے قوم کو بدنام کرنا چھوڑ دیں۔قوم آپ کیساتھ نہیں بلکے سچ اور حق کے ساتھ کھڑی ہے۔ میاں صاحب اور انکی کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ پر گولہ باری کا سلسلہ جاری تھا کہ اسی دوران میاں نواز شریف صاحب کو وزارت عظمی کے بعد پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دے دیاگیا اور نہ صرف نا اہل بلکہ پہلی نااہلی کے دن 28جولائی 2017 سے لیکر 20 فروری 2018 تک میاں نواز شریف صاحب کی جانب سے کیے جانے والے تمام اقدامات اور فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیے گئے جن میں لودھراں الیکشن اور سینٹ امیدواران کو جاری کیے گئے ٹکٹس اور دیگر بہت سارے اقدامات کالعدم قرار پا گئے۔ انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی شق 203 ترمیم کو کالعدم قرار دیا گیا اور بتایا گیا کے آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا نہ اترنے والا صادق اور امین نہ پایا جانے والا شخص کسی صورت کسی پارٹی کا صدر نہیں بن سکتا۔اس فیصلے نے ایک بار پھر گویا حکمران جماعت کی صفوں میں ماتم برپا کر دیا گیا ہے اور ایک بار پھر عدلیہ اور ادارے نشانے پر ہیں۔ میاں صاحب اور انکی پارٹی کیجانب سے عدلیہ پر اور چیف جسٹس آف پاکستان محترم جسٹس ثاقب نثار پر بھی لفظی گولہ باری عروج پر ہے مگر جسٹس صاحب کمال دانشمندی حوصلہ اور بہادری کیساتھ عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی جنگ ملک کی کرپٹ اشرافیہ کی جانب سے رکاوٹوں کے باوجود لڑ رہے ہیں۔ قوم سلام پیش کرتی ہے جسٹس صاحب کو جو کے اپنے حلف کے مطابق پاکستان میں دم توڑتے عدالتی نظام انصاف کو نئی زندگی دے رہے ہیں اور قوم کا اعتماد جوڈیشری سسٹم پر بحال کرنے کیلئے دن رات کوشاں ہیں حالیہ فیصلوں نے پاکستان کی غریب بے بس اور مظلوم عوام کو یقین دلایا ہے کے اب انصاف انصاف اور صرف انصاف ہو گا اور جرم پر پکڑ صرف غریب کی نہیں بلکہ ظالم حکمرانواں اور ملک کی بڑی اشرافیہ کیخلاف بھی گھیرا تنگ ہو گا قانون اور آئین کی بالا دستی قائم رکھنے پر پوری قوم عدلیہ کیساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے قوم کا سر تو عدلیہ کے ان فیصلوں پر فخر سے بلند ہوا ہے اب یقین آرہا ہے کے ہمارے ادارے درست سمت میں کام کر رہے ہیں عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شور مچانے والے شور مچا رہے ہیں ابھی تو انشا اللہ ہمیں یقین ہے کے قومی دولت لوٹنے وسائل کے بے دریغ استعمال کرنے بیرون ملک ناجائز اثاثے بنانے اور چھپانے پر عملی سزائیں سنائی جانا باقی ہیں اور ناجائزاثاثوں کی ضبطگی سمیت دیگر سزاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ حدیبیہ پیپر ملز ، سانحہ ماڈل ٹاٶن کے ١٤ شہدا سمیت دیگر کئی کیسز کا سامنا کرنا بھی باقی ہے

۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں